وہ حقائق جو آپ کو معلوم نہیں! نبی کریم ﷺ پر اعتراضات کا مدلل جواب

وہ حقائق جو آپ کو معلوم نہیں! نبی کریم ﷺ پر اعتراضات کا مدلل جواب

 کبھی سوچا ہے کہ اگر کوئی آپ کے والد، والدہ، یا کسی پیارے عزیز کے بارے میں جھوٹ بولے تو آپ کا دل کیسا ٹوٹے گا؟ کیسا لگے گا اگر کوئی ان پر بے بنیاد الزامات لگائے، ان کی عظمت کو جھٹلائے، اور ان کے کردار پر سوال اٹھائے؟ اب ذرا تصور کیجیے کہ یہ الزامات ہمارے محبوب نبی محمد مصطفیٰ ﷺ پر لگائے جائیں جنہیں ہم اپنی جانوں سے زیادہ عزیز رکھتے ہیں، جو ہمارے لیے اللہ کی سب سے بڑی نعمت ہیں اور جن کی محبت ہمارے ایمان کا حصہ ہے۔

یہ کوئی معمولی بات نہیں، بلکہ ایک ایسا درد ہے جو ہر مسلمان کے دل میں چبھتا ہے۔ جب کوئی نبی کریم ﷺ کی سیرت کو مسخ کرنے کی کوشش کرتا ہے تو ہم صرف جذباتی نہیں ہوتے بلکہ ہمارا ایمان بھی پکار اٹھتا ہے کہ ہمیں سچائی کو دنیا کے سامنے پیش کرنا ہے۔

نبی کریم ﷺ تمام مسلمانوں کے دلوں میں ایک اعلی مقام رکھتے ہیں کیونکہ آپ ﷺ اللہ کے آخری نبی اور سراپا رحمت و عدل کی بہترین مثال تھے۔ تاہم

 تاریخ کے مختلف ادوار میں بعض مخالفین نے آپ ﷺ کی ذات مبارکہ پر بے بنیاد اور گستاخانہ الزامات عائد کیے۔ یہ مضمون مستند حوالہ جات اور تاریخی شواہد کی روشنی میں ان الزامات کا مدلل رد پیش کرے گا تاکہ نبی کریم ﷺ کے کردار اور اعمال کی اصل حقیقت واضح ہو سکے۔

کی تعریف(Blasphemy)گستاخی

 گستاخی کا مطلب کسی بھی مقدس شخصیت، مذہب، یا عقیدے کی بے حرمتی یا تحقیر کرنا ہے۔ اسلامی تناظر میں، نبی کریم ﷺ کے خلاف نازیبا الفاظ کہنا یا آپ کی سیرت کے بارے میں جھوٹا پروپیگنڈہ کرنا گستاخی میں شمار ہوتا ہے۔

نبی کریم ﷺ پر بے بنیاد الزامات لگانے کی وجوہات

تاریخ کی غلط تفہیم

بعض لوگ تاریخ کو صحیح سیاق و سباق کے بغیر بیان کرتے ہیں، جس سے واقعات کا اصل مطلب مسخ ہو جاتا ہے۔ وہ متنازعہ اور غیر مستند ذرائع سے معلومات حاصل کرتے ہیں اور انہیں بنیاد بنا کر اسلام اور نبی کریم ﷺ پر اعتراضات کرتے ہیں۔

ثقافتی اور زمانی فرق

کیا ساتویں صدی کے عرب معاشرتی اقدار اور آج کی دنیا میں کوئی مماثلت ہو سکتی ہے؟ بالکل نہیں! مگر بعض ناقدین موجودہ زمانے کے اصولوں کو اس وقت پر لاگو کرنے کی کوشش کرتے ہیں، حالانکہ انسانی معاشرت ہمیشہ وقت اور مقام کے مطابق مختلف رہی ہے۔

واقعات کو سیاق و سباق سے ہٹاکر پیش کرنا

بہت سے لوگ نبی کریم ﷺ کے اقوال یا افعال کو اصل پس منظر کے بغیر پیش کرتے ہیں، جس سے سچائی مسخ ہو جاتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ نبی کریم ﷺ پر کیے جانے والے اعتراضات اکثر نامکمل اور غلط معلومات پر مبنی ہوتے ہیں۔

نبی کریم ﷺ کے خلاف الزامات اور ان کا مدلل رد

اسلام تلوار کے زور پر پھیلا کیا یہ سچ ہے؟

یہ ایک ایسا الزام ہے جو بار بار دہرایا جاتا ہے، مگر یہ حقیقت سے بہت دور ہے۔

 قرآن مجید صاف الفاظ میں کہتا ہے

دین میں کوئی زبردستی نہیں
(سورۃ البقرہ، 256)

اگر اسلام جبر اور تلوار کے زور پر پھیلایا گیا ہوتا، تو کیا آج دنیا میں اتنی بڑی تعداد میں وہ لوگ مسلمان ہوتے جن کے آباؤ اجداد پر کبھی کسی مسلمان کی حکومت نہیں رہی؟

حقیقت کیا ہے؟

نبی کریم ﷺ کی ساری جنگیں دفاعی نوعیت کی تھیں، جن کا مقصد ظلم و زیادتی کا مقابلہ کرنا تھا۔
جب نبی کریم ﷺ کو مدینہ میں ایک خودمختار ریاست ملی، تو آپ ﷺ نے وہاں تمام اقوام کو مکمل مذہبی آزادی دی۔
کوئی بھی غیر مسلم جبراً مسلمان نہیں بنایا گیا، بلکہ لوگ اسلام کے عدل و انصاف سے متاثر ہو کر خود ہی مسلمان ہوئے۔

مغربی محققین کا اعتراف

مشہور امریکی مورخ واشنگٹن ارونگ اپنی کتاب

Mahomet and His Successors

میں لکھتا ہے

نبی کریم ﷺ کی فوجی فتوحات نے انہیں فخر میں مبتلا نہیں کیا، نہ ہی انہیں کوئی دنیاوی حرص تھی۔ ان کی طاقت کے عروج پر بھی وہ سادگی اور عاجزی کا پیکر رہے۔

برطانوی مصنف بوسورتھ اسمتھ اپنی کتاب

Muhammad and Muhammadanism

میں لکھتا ہے

محمد ﷺ ایک وقت میں قیصر بھی تھے اور پوپ بھی، مگر بغیر کسی شاہی جاہ و جلال کے۔ ان کے پاس کوئی باڈی گارڈ نہ تھا، نہ کوئی محل، نہ خزانہ، اور نہ ہی مستقل فوج، مگر پھر بھی ان کا اثر و رسوخ بے مثال تھا۔

نبی کریم ﷺ غیر مسلموں کے لیے رواداری نہیں رکھتے تھے

یہ دعویٰ حقیقت کے بالکل برعکس ہے۔ نبی کریم ﷺ نے غیر مسلموں کے ساتھ جو رواداری اور حسن سلوک کیا، تاریخ میں اس کی کوئی دوسری مثال نہیں ملتی۔

میثاقِ مدینہ: ایک شاندار مثال

جب نبی کریم ﷺ مدینہ تشریف لائے، تو وہاں مختلف مذاہب کے لوگ بستے تھے۔ آپ ﷺ نے ان سب کے ساتھ مل کر ایک معاہدہ کیا، جسے میثاقِ مدینہ کہا جاتا ہے۔ اس میں درج تھا

بنو عوف کے یہودی مسلمانوں کے ساتھ ایک امت ہیں۔ ان کے لیے ان کا دین ہے اور مسلمانوں کے لیے ان کا دین ہے، جب تک کہ وہ ظلم اور جرم نہ کریں۔
(میثاقِ مدینہ، 25)

نبی کریم ﷺ کی عیسائیوں کے ساتھ رواداری

نبی کریم ﷺ نے نہ صرف یہودیوں، بلکہ عیسائیوں کے ساتھ بھی حسن سلوک فرمایا۔ سینٹ کیتھرین خانقاہ کے راہبوں کو تحریری فرمان جاری کیا

عیسائی میرے شہری ہیں، اور میں ان کی حفاظت کا ذمہ دار ہوں۔

حضرت عائشہؓ کی کم عمری میں شادی

صحیح بخاری اور صحیح مسلم میں ایسی متعدد روایات موجود ہیں جو حضرت عائشہؓ کی شادی اور رخصتی کی عمر کی وضاحت کرتی ہیں۔

صحیح بخاری کی روایت

امام بخاریؒ اپنی کتاب صحیح بخاری میں بیان کرتے ہیں

ہشام بن عروہ اپنے والد (عروہ بن زبیر) سے روایت کرتے ہیں کہ حضرت عائشہؓ نے فرمایا: نبی کریمﷺ نے ان سے اس وقت نکاح کیا جب وہ چھ سال کی تھیں، اور رخصتی نو سال کی عمر میں ہوئی، اور پھر وہ نبی کریمﷺ کے ساتھ نو سال رہیں۔
(بخاری، صحیح بخاری، کتاب النکاح، حدیث نمبر 5133)

صحیح مسلم کی روایت

اسی طرح امام مسلمؒ اپنی کتاب صحیح مسلم میں روایت کرتے ہیں

الاعمش، ابراہیم اور اسود سے روایت کرتے ہیں کہ حضرت عائشہؓ نے فرمایا: رسول اللہﷺ نے ان سے اس وقت نکاح کیا جب وہ چھ سال کی تھیں اور رخصتی نو سال کی عمر میں ہوئی، اور جب آپﷺ کا وصال ہوا تو میں اٹھارہ سال کی تھی۔
(مسلم، صحیح مسلم، کتاب النکاح، حدیث نمبر 1422)

علمائے کرام کی آراء اور اجماع

مذکورہ بالا احادیث نہ صرف صحیحین (صحیح بخاری و صحیح مسلم) میں موجود ہیں بلکہ دیگر کئی مستند کتبِ حدیث میں بھی یہی روایت موجود ہے۔

متعدد احادیث کی تائید

صحیح بخاری و مسلم کے علاوہ دیگر کتب میں بھی اسی مضمون کی روایات درج ہیں

ابو داؤد (سنن ابی داؤد، کتاب الادب، حدیث نمبر 4933)

ابن ماجہ (سنن ابن ماجہ، کتاب النکاح، حدیث نمبر 1876)

نسائی (سنن نسائی، کتاب النکاح، حدیث نمبر 3255)

علمائے کرام کی متفقہ رائے

کسی بھی معتبر محدث یا فقیہ نے ان احادیث کی صحت پر اعتراض نہیں کیا، بلکہ تمام جلیل القدر علماء نے ان روایات کو قبول کیا اور ان پر اجماع ہونے کا ذکر کیا۔

ابن حزمؒ فرماتے ہیں

حضرت عائشہؓ کی عمر کے بارے میں نصوص میں کسی قسم کا اختلاف نہیں ہے۔”
(ابن حزم، حجة الوداع، ص 435)

ابن کثیرؒ لکھتے ہیں

یہ ایسا مسئلہ ہے جس میں لوگوں کے درمیان کوئی اختلاف نہیں ہے۔”
(ابن کثیر، السیرة النبوية، جلد 2، صفحہ 141)

ابن عبد البرؒ بیان کرتے ہیں

مجھے اس معاملے میں کسی کے اختلاف کا علم نہیں۔”
(ابن عبد البر، الاستیعاب، جلد 4، صفحہ 1881)

حضرت عائشہؓ کے نکاح کے پس منظر

حضرت خدیجہؓ کے وصال کے بعد نبی کریمﷺ نے دوسری شادی کا ارادہ کیا۔ اس موقع پر حضرت خولہ بنت حکیمؓ نے آپﷺ کو دو خواتین کے نام تجویز کیے:

سودہ بنت زمعہؓ (جو بیوہ تھیں)

عائشہ بنت ابی بکرؓ (جو کمسن تھیں)

نبی کریمﷺ نے دونوں نکاح کیے۔ حضرت عائشہؓ کا نکاح ہوا تو وہ اس وقت کمسن تھیں، لہٰذا کچھ عرصہ بعد رخصتی عمل میں آئی۔

حضرت اسماءؓ کی عمر سے استدلال

حضرت اسماء بنت ابی بکرؓ، جو حضرت عائشہؓ کی بڑی بہن تھیں، ان کی عمر سے متعلق بعض تاریخی شواہد درج ذیل ہیں

حضرت اسماءؓ کا انتقال 73 ہجری (692ء) میں 100 سال کی عمر میں ہوا۔

اگر حضرت اسماءؓ حضرت عائشہؓ سے 10 سال بڑی تھیں، تو اس حساب سے حضرت عائشہؓ کی پیدائش تقریباً 9 قبل ہجرت (614ء) میں ہوئی ہوگی۔

اس سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ جب حضرت عائشہؓ کی رخصتی ہوئی تو ان کی عمر 18 سال تھی۔

یہ دلیل اس روایت کے برعکس ہے جو ان کی عمر 9 سال بتاتی ہے۔

جنگِ اُحد میں شرکت سے استدلال

حضرت عائشہؓ کی عمر کا اندازہ ان کی جنگِ اُحد میں شرکت سے بھی لگایا جاتا ہے

صحیح مسلم میں حضرت عبداللہ بن عمرؓ روایت کرتے ہیں کہ نبی کریمﷺ نے انہیں 14 سال کی عمر میں جنگِ اُحد میں شرکت کی اجازت نہیں دی، لیکن 15 سال کی عمر میں جنگِ خندق میں شرکت کی اجازت دے دی۔

(صحیح مسلم، کتاب الجہاد، حدیث نمبر 1868)

روایات کے مطابق حضرت عائشہؓ جنگِ اُحد میں پانی پلانے اور زخمیوں کی تیمارداری کے لیے موجود تھیں، جو کہ 15 سال سے زائد عمر کی خواتین کے لیے مخصوص تھا۔

اس سے معلوم ہوتا ہے کہ جنگِ اُحد (3 ہجری) کے وقت حضرت عائشہؓ کم از کم 15 سال کی تھیں، جس کا مطلب یہ ہے کہ ان کی رخصتی 13 یا 14 سال کی عمر میں ہوئی ہوگی۔

حضرت فاطمہؓ کی عمر سے استدلال

حضرت فاطمہؓ کی پیدائش اس وقت ہوئی جب خانہ کعبہ کی تعمیر نو ہو رہی تھی، اور اس وقت نبی کریمﷺ کی عمر 35 سال تھی۔

حضرت فاطمہؓ حضرت عائشہؓ سے 5 سال بڑی تھیں۔

اگر حضرت فاطمہؓ کی پیدائش 35 عام الفیل میں ہوئی، تو حضرت عائشہؓ کی پیدائش 40 عام الفیل میں ہوئی ہوگی، یعنی جب نبی کریمﷺ کی عمر 40 سال تھی۔

اس کے مطابق حضرت عائشہؓ کی شادی 12 سال کی عمر میں ہوئی ہوگی، اور رخصتی بعد میں، یعنی وہ کم از کم 15 سے 18 سال کی تھیں۔

یہ تاریخی تناظر بھی ان کے 9 سال کی عمر میں رخصتی ہونے کے بیان سے مختلف ہے۔

یہ مسئلہ مغربی دنیا میں خاص طور پر تنقید کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔

عرب معاشرت میں شادی کی عمریں

ساتویں صدی کے عرب میں نکاح کی عمریں مختلف ہوتی تھیں اور سماجی حالات کے مطابق کم عمری میں شادی عام تھی۔

مشہور مستشرق ولیم مونٹگمری واٹ اپنی کتاب

“Muhammad: Prophet and Statesman”

میں لکھتا ہے

حضرت عائشہؓ کا نکاح سماجی اور سیاسی حکمت عملی کا حصہ تھا، جس سے حضرت ابوبکرؓ کے ساتھ تعلق مزید مستحکم ہوا۔”

ذہنی و جسمانی بلوغت کا فرق

مختلف علاقوں میں بلوغت کی عمر مختلف ہو سکتی ہے۔

 مشہور اسلامی اسکالر ڈاکٹر محمد حمید اللہ اپنی کتاب

“Introduction to Islam”

میں لکھتا ہے

قدیم عرب میں جسمانی اور ذہنی بلوغت کا معیار آج کے دور سے مختلف تھا، اس لیے تاریخی واقعات کو آج کے معیارات پر جانچنا غلط ہوگا۔

یہ دلائل ثابت کرتے ہیں کہ حضرت عائشہؓ کی شادی کو آج کے تناظر میں دیکھنا غیر منطقی ہے۔

نبی کریم ﷺ کا مخالفین کے ساتھ حسن سلوک
طائف کا واقعہ

جب نبی کریم ﷺ تبلیغ کے لیے طائف گئے تو وہاں کے لوگوں نے آپ ﷺ پر پتھر برسائے، لیکن آپ ﷺ نے بددعا دینے کے بجائے فرمایا

اے اللہ! میری قوم کو ہدایت دے، کیونکہ یہ لوگ نہیں جانتے۔”

فتح مکہ پر عام معافی

فتح مکہ کے موقع پر جب آپ ﷺ کو مکمل اختیار حاصل تھا، تو آپ ﷺ نے اپنے دشمنوں سے انتقام لینے کے بجائے فرمایا

آج تم پر کوئی گرفت نہیں، جاؤ تم سب آزاد ہو۔”

برطانوی مصنف کرن آرمسٹرانگ اپنی کتاب

“Muhammad: A Prophet for Our Time”

میں لکھا ہے

محمد ﷺ کوئی خونخوار جنگجو نہیں تھے، بلکہ ایک ایسے شخص تھے جنہوں نے اپنی شخصیت، کردار، اور وژن کے ذریعے تاریخ کا رخ موڑا۔

یہ دنیا ہمیشہ سے حق اور باطل کے درمیان میدانِ جنگ رہی ہے۔ کچھ لوگ ہمیشہ روشنی کو اندھیرے میں بدلنے کی کوشش کرتے رہیں گے، لیکن ہمیں یاد رکھنا ہوگا کہ اندھیرا کتنا ہی گہرا کیوں نہ ہو، ایک چھوٹی سی شمع بھی اسے شکست دے سکتی ہے۔

نبی کریم ﷺ پر لگائے گئے الزامات صرف الفاظ کی بازیگری نہیں، بلکہ حق کو جھٹلانے کی ایک سازش ہے۔ لیکن تاریخ گواہ ہے کہ حق ہمیشہ غالب آتا ہے اور جھوٹ ہمیشہ زوال پذیر ہوتا ہے۔ ہمیں چاہیے کہ ہم نہ صرف ان جھوٹے الزامات کا مدلل جواب دیں، بلکہ اپنی زندگی میں سیرتِ نبوی ﷺ کو عملی طور پر نافذ کریں۔

جب ہم نبی کریم ﷺ کی محبت کو اپنی زندگی میں اپنائیں گے، آپ کی تعلیمات پر عمل کریں گے اور آپ کے اخلاق کو دنیا کے سامنے پیش کریں گے، تو یہی سب سے بڑا جواب ہوگا ان لوگوں کے لیے جو نفرت پھیلانے کی کوشش کرتے ہیں۔ کیونکہ ایک بہترین دلیل، ایک مضبوط دلیل سے بھی زیادہ طاقتور ہوتی ہے اور وہ ہے عمل کی دلیل

Write a comment