نبی کریم حضرت محمد ﷺ کی ذاتِ اقدس نہ صرف مسلمانوں کے لیے بلکہ پوری انسانیت کے لیے رحمت اور ہدایت کا سرچشمہ ہے۔ آپ ﷺ کی حرمت اور عزت کا تحفظ ہر مسلمان پر دینی، اخلاقی اور روحانی فریضہ ہے۔ یہ احترام محض جذباتی وابستگی نہیں بلکہ ایک ایسا عقیدہ ہے جو ایمان کی بنیاد میں شامل ہے۔ قرآن مجید میں واضح حکم دیا گیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ کی عزت، ان کے احکامات اور ان کی سنت کی پیروی کو اپنی زندگی کا محور بناؤ۔ اس تناظر میں نبی کریم ﷺ کی حرمت کی حفاظت کا معاملہ صرف ذاتی عقیدت تک محدود نہیں بلکہ یہ امت کی اجتماعی ذمہ داری ہے جسے ریاستی قوانین، عدالتی فیصلے اور فقہی آراء مزید مضبوط کرتے ہیں۔
حرمتِ رسول ﷺ کا ایمانی درجہ
اسلام میں نبی کریم ﷺ کی حرمت کا درجہ اتنا بلند ہے کہ اس کے بغیر ایمان مکمل نہیں ہوتا۔ صحیح بخاری کی ایک روایت میں حضرت عمرؓ کو آپ ﷺ نے فرمایا
تم میں سے کوئی اس وقت تک کامل مومن نہیں ہو سکتا جب تک میں اُسے اس کی جان، مال اور اہل و عیال سے زیادہ عزیز نہ ہو جاؤں۔
اس سے معلوم ہوتا ہے کہ رسول اللہ ﷺ کی محبت اور تعظیم ایمان کے بنیادی ارکان میں سے ہے۔ یہ محبت اور احترام اس درجے کی ہے کہ ماں باپ کی اطاعت، استاد کا ادب یا بزرگوں کا احترام بھی اس کے برابر نہیں ہو سکتا۔ فقہاء اور مفسرین نے واضح کیا ہے کہ نبی ﷺ کی توہین یا گستاخی ایمان کے خاتمے کا سبب بنتی ہے۔ اسی لیے اسلامی معاشروں نے ہمیشہ حرمتِ رسول ﷺ کو اپنی تہذیبی اور قانونی بنیادوں میں شامل رکھا۔
قرآن و حدیث میں حکمِ تعظیمِ رسول ﷺ
قرآن مجید میں متعدد مقامات پر نبی کریم ﷺ کی تعظیم کا حکم دیا گیا ہے۔ سورۃ الفتح آیت 9 میں ارشاد ہے
تاکہ تم لوگ اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لاؤ، اس کی مدد کرو، اس کا احترام کرو اور صبح و شام اس کی تسبیح بیان کرو۔
یہ آیت واضح کرتی ہے کہ رسول اللہ ﷺ کی تعظیم ایمان کے عملی تقاضوں میں شامل ہے۔ اسی طرح سورۃ الحجرات آیت 2 میں حکم دیا گیا کہ رسول ﷺ سے بلند آواز میں بات نہ کرو اور نہ ہی ان کے سامنے ایسے کلمات کہو جو بے ادبی کا پہلو رکھتے ہوں۔ احادیث میں بھی نبی ﷺ کی حرمت کے تحفظ پر سخت تاکید ہے۔ حضرت انسؓ بیان کرتے ہیں کہ صحابہ کرامؓ آپ ﷺ کی مجلس میں ایسے بیٹھتے تھے گویا ان کے سروں پر پرندے بیٹھے ہوں، یعنی ادب اور خاموشی سے۔ یہ سب تعلیمات اس بات کو اجاگر کرتی ہیں کہ نبی ﷺ کی حرمت اور ادب کا معاملہ صرف دنیاوی نہیں بلکہ اخروی نجات کا ذریعہ ہے۔
پاکستان میں نبی کریم ﷺ کی حرمت کا آئینی تحفظ
آئینِ پاکستان کی مذہبی دفعات
پاکستان کے آئین میں مذہب اسلام کو ریاست کا بنیادی تشخص قرار دیا گیا ہے۔ آرٹیکل 2 میں واضح کیا گیا ہے کہ “اسلامی جمہوریہ پاکستان کا مذہب اسلام ہوگا”۔ مزید برآں، آئین کی دفعہ 31 مسلمانوں کو قرآن و سنت کے مطابق زندگی گزارنے کا حق دیتی ہے۔ نبی کریم ﷺ کی حرمت کے تحفظ کے لیے دفعہ 295 سی تعزیراتِ پاکستان میں شامل کی گئی، جو ناموسِ رسالت کی توہین پر سزائے موت یا عمر قید تجویز کرتی ہے۔ آئین کی ان دفعات کا مقصد یہ ہے کہ ریاست اسلامی اقدار کے تحفظ کی ذمہ داری اٹھائے، اور معاشرے میں ایسا ماحول پیدا کرے جہاں حرمتِ رسول ﷺ پر کوئی حملہ نہ ہو۔
اسلامی نظریاتی کونسل کا کردار
اسلامی نظریاتی کونسل پاکستان کا آئینی ادارہ ہے جو قوانین کو قرآن و سنت کے مطابق ڈھالنے کی سفارشات دیتی ہے۔ اس کونسل نے بارہا سفارش کی ہے کہ توہینِ رسالت کے قوانین میں کسی قسم کی نرمی یا ترمیم نہ کی جائے، بلکہ ان پر سختی سے عمل درآمد کو یقینی بنایا جائے۔ کونسل کی رپورٹس میں یہ بھی بیان کیا گیا ہے کہ نبی کریم ﷺ کی حرمت کا معاملہ محض قانونی نہیں بلکہ ایمانی غیرت اور دینی حمیت کا ہے۔ اس لیے ریاست کو چاہیے کہ نہ صرف قانون سازی کرے بلکہ عوام میں شعور پیدا کرے تاکہ اس مقدس فریضے کی پاسداری ہر سطح پر ہو۔
تعزیراتِ پاکستان میں توہینِ رسالت کے قوانین
دفعہ 295-سی اور اس کا تاریخی پس منظر
پاکستان میں نبی کریم ﷺ کی حرمت کے تحفظ کے لیے سب سے نمایاں اور سخت قانون تعزیراتِ پاکستان کی دفعہ 295-سی ہے۔ یہ دفعہ 1986ء میں اُس وقت کے فوجی صدر جنرل ضیاء الحق کے دور میں متعارف کرائی گئی۔ اس سے قبل بھی توہینِ مذہب اور مقدس شخصیات کی توہین کے خلاف قوانین موجود تھے، مگراس دفعہ کے مطابق 295- ناموسِ رسالت کے حوالے سے سزا کو نہایت سخت بنا دیا۔
جو کوئی بذریعہ الفاظ، تحریر، تصویری، یا ظاہری یا پوشیدہ اشارہ، براہِ راست یا بالواسطہ، نبی کریم ﷺ کے مقدس نام کی توہین کرے، اسے سزائے موت یا عمر قید اور جرمانہ کیا جائے گا۔
یہ قانون اس مقصد کے تحت بنایا گیا کہ معاشرے میں نبی کریم ﷺ کی حرمت کو ناقابلِ تسخیر حیثیت دی جائے اور کوئی شخص زبان یا قلم سے اس عظیم المرتبت ہستی کی گستاخی نہ کر سکے۔
تاہم، اس قانون پر بعض حلقوں کی جانب سے یہ اعتراض بھی کیا گیا کہ اس کا دائرۂ کار بہت وسیع ہے اور بعض اوقات اسے ذاتی دشمنیوں یا جھوٹے الزامات کے لیے بھی استعمال کیا جاتا ہے۔ اسی وجہ سے عدالتوں نے کئی مقدمات میں اس بات پر زور دیا ہے کہ ایسے معاملات میں غیر معمولی احتیاط برتی جائے، تاکہ کسی بے گناہ کو سزا نہ ہو اور عدل کے تقاضے پورے کیے جا سکیں۔
عدالتوں کا طرزِ عمل اور اہم مقدمات
پاکستانی عدلیہ نے توہینِ رسالت کے مقدمات میں ہمیشہ یہ اصول اپنایا ہے کہ الزام کے ثبوت مضبوط اور ناقابلِ تردید ہوں۔ سپریم کورٹ اور ہائی کورٹس کے متعدد فیصلے اس امر کی وضاحت کرتے ہیں کہ گواہوں کے بیانات میں تضاد یا شک کی صورت میں ملزم کو فائدہ دیا جائے۔
ممتاز قادری کیس
یہ واقعہ اس وقت عالمی میڈیا میں آیا جب سلمان تاثیر کے قتل کے بعد ممتاز قادری کو سزائے موت سنائی گئی۔ عدالت نے اپنے فیصلے میں کہا کہ قانون ہاتھ میں لینا ممنوع ہے، اور توہینِ رسالت کے معاملات ریاست کے دائرہ کار میں آتے ہیں۔
آسیہ بی بی کیس
یہ مقدمہ کئی سال چلا اور آخرکار سپریم کورٹ نے ناکافی شواہد کی بنیاد پر آسیہ بی بی کو بری کیا۔ اس فیصلے میں عدالت نے واضح کیا کہ گواہی اور شواہد کے بغیر کسی کو سزا دینا انصاف کے اصولوں کے خلاف ہے۔
ان مثالوں سے واضح ہے کہ عدالتیں اس حساس معاملے میں شریعت اور آئین دونوں کی روشنی میں احتیاط اور عدل کو مقدم رکھتی ہیں۔
ریاستی و عدالتی عزم
حکومتی بیانات اور پالیسی
پاکستانی حکومت نے ہمیشہ یہ موقف اختیار کیا ہے کہ نبی کریم ﷺ کی حرمت پر کوئی سمجھوتہ ممکن نہیں۔ مختلف وزرائے اعظم اور صدور نے اس حوالے سے دو ٹوک الفاظ میں بیانات دیے ہیں۔
2020
میں وزیر اعظم عمران خان نے اقوامِ متحدہ میں خطاب کرتے ہوئے مطالبہ کیا کہ عالمی سطح پر ایسا قانون بنایا جائے جو نبی کریم ﷺ کی توہین کو جرم قرار دے۔
2023
میں موجودہ حکومت نے اعلان کیا کہ حرمتِ رسول ﷺ کے تحفظ کے لیے قوانین پر عمل درآمد مزید سخت کیا جائے گا۔
ریاستی پالیسی میں یہ بھی شامل ہے کہ توہینِ رسالت کے مقدمات میں تفتیشی عمل تیز اور شفاف بنایا جائے، تاکہ نہ بے گناہ متاثر ہو اور نہ مجرم سزا سے بچ سکے۔
سپریم کورٹ اور ہائی کورٹ کے اہم فیصلے
اعلیٰ عدلیہ کے کئی فیصلے اس بات کی عکاسی کرتے ہیں کہ عدالتیں حرمتِ رسول ﷺ کے تحفظ کو آئینی و شرعی ذمہ داری سمجھتی ہیں۔
مبارک احمد سانی کیس میں عدالت نے کہا کہ اسلامی شخصیات اور متون کی بے حرمتی ایک ناقابلِ برداشت جرم ہے اور اس پر کوئی نرمی نہیں برتی جا سکتی۔
کئی فیصلوں میں یہ اصول واضع کیا گیا ہے کہ توہینِ رسالت کے مقدمات میں فوری گرفتاری اور سخت حفاظتی اقدامات ضروری ہیں، کیونکہ اس نوعیت کے الزامات سماجی اشتعال اور عوامی ردِ عمل پیدا کرتے ہیں۔ ان فیصلوں کا خلاصہ یہ ہے کہ حرمتِ رسول ﷺ کے تحفظ کے قوانین کو نافذ کرنا نہ صرف ایک قانونی تقاضا ہے بلکہ یہ ریاست کے نظریاتی تشخص کی بقا سے بھی جڑا ہوا ہے۔
حرمتِ رسول ﷺ اور جدید قانونی چیلنجز
عصرِ حاضر میں توہینِ رسالت کے قوانین پر بین الاقوامی سطح پر بحث اور اعتراضات سامنے آتے ہیں۔
بعض مغربی ممالک میں اظہارِ رائے کی آزادی کو جواز بنا کر گستاخانہ حرکات کو قانونی تحفظ دیا جاتا ہے، جسے مسلم دنیا میں شدید ردِ عمل کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
پاکستان جیسے ممالک میں یہ قوانین مذہبی حساسیت اور معاشرتی امن کے لیے ضروری سمجھے جاتے ہیں، لیکن ان کے غلط استعمال کو روکنا بھی ایک اہم چیلنج ہے۔
عدالتیں اور حکومت دونوں اس بات پر متفق ہیں کہ ایسے قوانین میں شفافیت اور انصاف کو یقینی بنایا جائے، تاکہ ان کا غلط فائدہ نہ اٹھایا جا سکے۔
یہ قانونی اور عالمی چیلنجز اس بات کی یاد دہانی ہیں کہ حرمتِ رسول ﷺ کا تحفظ صرف قانونی معاملہ نہیں بلکہ ایک عالمی دینی اور تہذیبی مسئلہ بھی ہے۔
عالمی سطح پر حرمتِ رسول ﷺ کے تحفظ کی کوششیں
دنیا بھر میں مسلم ممالک اور اسلامی تنظیمیں نبی کریم ﷺ کی حرمت کے تحفظ کے لیے مختلف پلیٹ فارمز پر سرگرم ہیں۔
او آئی سی (Organization of Islamic Cooperation)
نے کئی بار قراردادیں منظور کی ہیں جن میں اقوامِ متحدہ سے مطالبہ کیا گیا ہے کہ عالمی سطح پر ایک قانون بنایا جائے جو انبیائے کرامؑ کی توہین کو جرم قرار دے۔
ترکی، ایران، سعودی عرب اور پاکستان جیسے ممالک نے مشترکہ طور پر عالمی فورمز پر اس مسئلے کو اجاگر کیا۔
پاکستان نے 2020 میں اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی میں ایک مؤثر تقریر کے ذریعے دنیا کو باور کرایا کہ نبی کریم ﷺ کی توہین ایک ارب سے زائد مسلمانوں کے دینی جذبات کو ٹھیس پہنچاتی ہے اور عالمی امن کے لیے خطرہ بن سکتی ہے۔
ان کوششوں کا مقصد یہ ہے کہ حرمتِ رسول ﷺ کو صرف ایک ملکی قانون تک محدود نہ رکھا جائے بلکہ اسے بین الاقوامی قانون کا حصہ بنایا جائے تاکہ دنیا کے کسی بھی کونے میں ایسے جرائم کے لیے واضح اور مؤثر سزا موجود ہو۔
پاکستان میں ان قوانین کے نفاذ کے سماجی اثرات
حرمتِ رسول ﷺ کے قوانین کا پاکستان میں گہرا سماجی اثر ہے۔
ایک طرف یہ قوانین عوام کے دینی جذبات کو تحفظ فراہم کرتے ہیں، جس سے معاشرتی ہم آہنگی برقرار رہتی ہے۔
دوسری طرف بعض اوقات جھوٹے مقدمات اور ذاتی دشمنی میں ان قوانین کا غلط استعمال بھی سامنے آیا ہے، جو معاشرتی بگاڑ اور عدالتی بوجھ کا باعث بنتا ہے۔
ایسے واقعات میں عوامی اشتعال بڑھ جاتا ہے اور بعض اوقات ماورائے عدالت کارروائیاں بھی ہو جاتی ہیں، جنہیں ریاست اور عُلماء ما دونوں غلط قرار دیتے ہیں۔
یہ حقیقت تسلیم کرنی ہوگی کہ حرمتِ رسول ﷺ کے تحفظ کے ساتھ ساتھ قوانین کے شفاف نفاذ اور غلط استعمال کی روک تھام بھی یکساں اہمیت رکھتی ہے۔
تاریخی پس منظر: اسلامی تاریخ میں گستاخی کے مقدمات
اسلامی تاریخ میں نبی کریم ﷺ کی حرمت کے تحفظ کے کئی واقعات ملتے ہیں
عہدِ نبوی ﷺ میں کعب بن اشرف اور دیگر گستاخ شعرا کے خلاف اقدامات اس بات کی مثال ہیں کہ اس جرم کو کبھی برداشت نہیں کیا گیا۔
عہدِ خلافت راشدہ میں بھی ایسے مجرموں کو سخت سزائیں دی گئیں، اور اس پر پوری امت متفق تھی۔
اندلس، عثمانی خلافت اور برصغیر میں بھی عُلماء اور حکمران اس جرم کے انسداد کے لیے سخت قوانین نافذ کرتے رہے۔
یہ تاریخی مثالیں اس بات کا ثبوت ہیں کہ حرمتِ رسول ﷺ کا تحفظ محض ایک فقہی یا قانونی معاملہ نہیں بلکہ امتِ مسلمہ کی مشترکہ دینی روایت کا حصہ ہے۔
موجودہ دور میں اصلاحی تجاویز
اگرچہ موجودہ قوانین سخت ہیں، لیکن ماہرین قانون اور ع عُلماء چند اصلاحی اقدامات کی سفارش کرتے ہیں
تحقیقی اور شفاف تفتیش تاکہ جھوٹے مقدمات سے بچا جا سکے۔
عوامی آگاہی مہم جس سے لوگ سمجھ سکیں کہ جھوٹا الزام لگانا خود ایک بڑا گناہ اور جرم ہے۔
بین الاقوامی سطح پر لابنگ تاکہ دنیا بھر میں حرمتِ رسول ﷺ کا تحفظ ممکن ہو۔
عدالتی عمل میں تیزی تاکہ مقدمات برسوں تک زیرِ سماعت نہ رہیں۔
یہ تجاویز اس مقصد سے دی جاتی ہیں کہ قانون کا تقدس برقرار رہے اور معاشرے میں امن اور انصاف قائم رہے۔
نبی کریم ﷺ کی حرمت کا تحفظ ایمان کا لازمی تقاضا ہے، جسے قرآن و سنت اور امت کے اجماع نے واضح کیا ہے۔ پاکستان جیسے ممالک میں اس کے لیے سخت قوانین موجود ہیں، اور مختلف فقہی مکاتب نے اس جرم کی سنگینی کو واضح کرتے ہوئے سزاؤں کا تعین کیا ہے۔ تاہم، اس حساس قانون کا درست اور شفاف نفاذ ضروری ہے، تاکہ نہ تو مجرم سزا سے بچ سکے اور نہ کوئی بے گناہ جھوٹے الزام کا نشانہ بنے۔ عالمی سطح پر بھی اس معاملے کو اجاگر کرنے کی ضرورت ہے تاکہ حرمتِ رسول ﷺ کا تحفظ ایک مسلمہ عالمی اصول کے طور پر تسلیم کیا جائے۔